کم عمری کی شادیوں سے مراد وہ شادیاں ہیں جن میں دونوں دولہا دلہن یا دونوں میں سے کسی ایک کی عمر اٹھارہ سال سے کم ہو۔ یہ شادیاں ختم کرنے کی کوششوں کے باوجود یہ ابھی بھی عام ہیں۔ ان شادیوں کا نہ صرف ازدواجی بندھن میں جڑنے والے افراد پر منفی اثر پڑتا ہے بلکہ یہ شادیاں بڑے پیمانے پر خاندانوں اور معاشرے کو بھی متاثر کرتی ہیں.
لڑکے اور لڑکیاں دونوں کم عمر کی شادی کی شادی سے متاثر ہوسکتی ہیں لیکن دنیا بھر میں لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیوں کے متاثر ہونے کا تناسب زیادہ ہے۔ پاکستان ان ممالک میں سے ایک ہے جہاں چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ 1929 (CMRA) جیسے قوانین کے باوجود کم عمری کی شادیاں عام ہیں۔ چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ 1929 (CMRA) کا اطلاق وفاقی حکومت کے زیر نگرانی علاقہ جات، خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں ہوتا ہے۔یہ قانوں لڑکوں کی شادی کی قانونی عمر 18 سال اور لڑکیوں کی 16 سال تک محدود کرتا ہے۔ پنجاب میں پنجاب میرج ریسٹرینٹ ایکٹ، 2015 کے تحت شادی کے لیے لڑکوں کی قانونی عمر 18 سال اور لڑکیوں کی 16 سال ہے ۔ جب کہ سندھ چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ، 2013 دونوں صنف کی شادی کی قانونی عمر 18 سال مقرر کرتا ہے۔
س مضمون میں ہم کم عمری کی شادیوں، ان کے اسباب اور بچوں اور مجموعی معاشرے کی فلاح و بہبود پر اثرات اور انفرادی سطح پر ان شادیوں کو روکنے کے لیے کس طرح عمل کر سکتے ہیں اس پر بات کریں گے۔
کم عمری کی شادیوں کے اسباب
پاکستان میں کم عمری کی شادیوں کے پیچھے مختلف عوامل اور وجوہات کار فرما ہیں جن میں ثقافتی اور غربت جیسے مالی عوامل شامل ہیں۔ پاکستان میں والد کو خاندان کا سربراہ اور والد کی موت کے بعد عام طور پر سب سے بڑے بھائی کو سمجھا جاتا ہے۔ اس سے انہیں اپنی بیٹیوں یا بہنوں کے لیے فیصلے لینے کا اختیار ملتا ہے، جیسے کہ انہیں کس سے اور کب شادی کرنی چاہیے۔
کم عمری کی شادیوں کا ایک اور سبب پاکستان میں غربت ہے۔ دیہی علاقوں میں عوام غربت کی سطح سے نیچے زندگی گزارتی ہیں اور اس طرح کے مشکل مالی حالات والدین کو اپنی بیٹیوں کی کم عمری میں شادی کرنے پر مجبور کرتے ہیں کیونکہ وہ کسی اور کی ذمہ داری ہوگی، جو اس کی دیکھ بھال کرے گا۔
معاشرے پر اثرات
کم عمری کی شادیاں نہ صرف اس فرد کی جسمانی، ذہنی اور جذباتی صحت پر بہت دور رس اثرات مرتب کرتی ہیں جس کی کم عمری میں شادی کر دی جاتی ہے بلکہ اس کے معاشرے پر بھی شدید منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
تعلیم سے محرومی
کم عمری کی شادی کے سب سے بڑے منفی اثرات میں سے ایک لڑکیوں کو تعلیم سے محروم کرنا ہے۔ پاکستان میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ عورت کو صرف گھریلو معاملات میں شامل ہونا چاہیے جیسے کہ شوہر اور بچوں کی دیکھ بھال، خاندان کے لیے کھانا بنانا وغیرہ۔ چونکہ لڑکیاں گھر کے کاموں میں مصروف رہتی ہیں، اس لیے ان کا اپنی تعلیم کو جاری رکھنا بہت مشکل ہوتا ہے اور جس وجہ سے وہ اسکول یا کالج چھوڑ دیتی ہیں جو کی ان کی تعلیمی اور ذاتی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ثابت ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے، یہ معاشرے کے مجموعی طور پر بگاڑ میں حصہ ڈالتا ہے، کیونکہ اگر ان لڑکیوں کو انفرادی طور پر ترقی کا موقع دیا جاتا ہے، تو وہ معاشرے کی معاون رکن بن سکتی ہیں۔
صحت پر اثرات
کم عمر کی شادی بچیوں کی صحت کے لیے خطرناک ثابت ہوتی ہیں ۔ ان خطروں میں پیدائش اور حمل کے دوران مشکلات شامل ہیں۔ بچیوں کو اپنی کم عمری اور جسمانی ناپختگی کی وجہ سے زچگی کی موت، بچے کی پیدائش کے دوران چوٹوں اور دیگر صحت کی پیچیدگیوں کا سامنا کرنے کا زیادہ امکان ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ، کم وزن والے نوزائیدہ بچوں کی موت چھوٹی عمر میں حمل کے متواتر نتائج میں سے ایک ہے۔
معاشی اثرات
کم عمری کی شادی لڑکیوں کی تعلیم اور روزگار حاصل کرنے کے راستے میں رکاوٹ کا کردار ادا کرتی ہے۔ جب لڑکیوں کی جلد شادی ہو جاتی ہے، تو وہ اکثر پیسے کے لیے اپنے شوہروں یا خاندان پر انحصار کرتی ہیں، جس سے ان کے لیے اپنی آمدنی کمانا اور اپنے خاندان کی مالی مدد کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ تعلیم اور کام کے مواقع کی یہ کمی معیشت کو سست کرتی ہے اور خاندانوں کو نسلوں تک غریب رکھتی ہے۔
سماجی اثرات
کم عمری کی شادیاں معاشرے میں غیر منصفانہ سلوک اور جنس کے بارے میں نقصان دہ تصورات کو ترویج دیتی ہیں۔ خواتین کو خاندانی امور میں بہت کم اختیارات اور آزادی حاصل ہوتی ہے، خاص طور پر جب ان کی شادی کم عمری میں کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ وہ لڑکیاں جن کی جلد شادی کر ائی جاتی ہیں وہ اکثر اپنی سہلیوں سے روابط کھو دیتی ہیں، جس سے وہ تفسیاتی مسائل، بدسلوکی اور استحصال کا شکار ہو جاتی ہیں۔
چوں کی شادیوں کی سزا
والدین/سرپرستوں، بچوں کی شادیوں کے لیے نکاح رجسٹرار اور بچوں کے ساتھ بالغ کنٹریکٹ میرج کے لیے سزائیں حسب ذیل ہیں،
علاقہ | قانون | سزا | ||
والدین | نکاح رجسٹرار | بالغ فرد جو کم عمر بچے سے شادی کرے | ||
پنجاب | پنجاب میرج ریسٹرینٹ (ترمیمی) ایکٹ، 2015 |
• چھ ماہ تک قید • 50,000 روپے جرمانہ |
• چھ ماہ تک قید • 50,000 روپے جرمانہ |
• چھ ماہ تک قید • 50,000 روپے جرمانہ |
سندھ | سندھ چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ، 2013 |
• کم از کم دو سال قید، زیادہ سے زیادہ تین سال • جرمانہ
|
• کم از کم دو سال قید، زیادہ سے زیادہ تین سال • جرمانہ
|
• کم از کم دو سال قید، زیادہ سے زیادہ تین سال • جرمانہ
|
وفاقی علاقے، خیبر پختونخوا اور بلوچستان | چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ، 1929 |
• ایک ماہ قید • 1,000 روپے جرمانہ |
• ایک ماہ قید • 1,000 روپے جرمانہ |
• ایک ماہ قید • 1,000 روپے جرمانہ |
کم عمری کی شادیاں کو ختم کرنے کے لیے اقدامات
کم عمری کی شادیاں ایک سنگین مسئلہ ہے اور اس کے افراد اور معاشرے پر دیرپا اثرات مرتب ہوتے ہیں اسی لیے ہم سب کے لیے ان کے خاتمے کے لیے کام کرنا انتہائی ضروری ہے۔
کم عمری کی شادیوں کو ختم کرنے میں مدد کے لیے آپ انفرادی سطح پر درج ذیل اقدامات اٹھا سکتے ہیں،
آگاہی دینا
ہم اپنے آس پاس کے لوگوں سے خاص طور پر والدین سے کم عمری کی شادیوں کے کے بارے میں بات کر سکتے ہیں۔
• والدین کو بچیوں کے لیے تعلیم کی اہمیت اور ان کی نشوونما پر اس کے اثرات سے آگاہ کریں،
• ان کو مفت اسکولوں اور اسکالرشپ کے بارے میں آگاہی فراہم کریں تاکہ ان کی مالی حالت ان کی بچیوں کے اسکول چھوڑنے کا سبب نہ بن جائے،
• پاکستان میں کم عمری کی شادی سے قوانین اور ان کی سزاؤں کے بارے میں آگاہی پھیلائیں۔
ان خاندانوں کی مدد کریں جو مالی دباؤ کا شکار ہیں۔
بچیوں کی تعلیم کی راہ میں غربت ایک بہت بڑی رکاوٹ کا کردار ادا کرتی ہے۔غربت سے تنگ والدین کو لگتا ہے کہ بچیوں کی شادی کرنا بہتر ہے۔ اگر آپ اپنے ارد گرد کسی ایسے فرد کو جانتے ہیں جسے تعلیم کے لیے مالی امداد کی ضرورت ہو تو آپ ان کی اس حوالے سے معاونت کرسکتے ہیں یا اپنے دوستوں اور خاندان والوں سے ان کی تعلیم میں مدد کے لیے کہہ سکتے ہیں۔ آپ ان کو مالی معاونت درج ذیل طریقوں سے فراہم کرسکتے ہیں،
• ان کے اسکول/کالج/یونیورسٹی ٹیوشن فیس ادا کریں۔
• ان کو کتابیں خریدنے میں معاونت فراہم کریں۔
• ان کو سکول کا یونیفارم خریدنے میں مدد فراہم کریں۔
نوٹ: اسکالرشپ کے مختلف پروگرام ہیں جو مکمل یا جزوی طور پر اسکول، کالج کی فیس ادا کرتے ہیں یا بعض صورتوں میں طلباء کو وظیفہ فراہم کرتے ہیں۔
آپ ان اسکالرشپس کے بارے میں معلومات یہاں حاصل کر سکتے ہیں۔
استعمال شدہ کتابیں اور یونیفارم عطیہ کریں۔
ان لڑکیوں کی مدد کرنے کا ایک سب سے بنیادی طریقہ یہ ہے کہ آپ اپنی استعمال شدہ کتابیں اور یونیفارم عطیہ کریں۔ کچھ خاندان ایسے ہیں جو اپنے بچوں کے لیے کتابیں اور یونیفارم خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے اور ہماری چھوٹی چھوٹی مہربانیاں ان کے بچوں کے خوابوں کو پورا کرنے میں بہت آگے جا سکتی ہیں۔
حکام کو مطلع کریں
اگر آپ اپنے اردگرد کسی ایسے بچے کو جانتے ہیں جس کی زبردستی شادی کی جا رہی ہے، تو ان کا موقف لیں۔ کم عمری کی شادیوں کی روک تھام ہماری اجتماعی ذمہ داری ہے۔ اگر آپ پاکستان میں ہیں اور آپ بچوں کے ساتھ کسی بھی قسم کی بدسلوکی کا شاہد ہیں ، تو آپ درج ذیل وسائل کے ذریعے حکام کو اس کی اطلاع دے سکتے ہیں،
علاقہ | تنظیم | رابطہ نمبر |
ملک بھر میں | وزارت انسانی حقوق | 1099 |
ساحل ہیڈ آفس ہیلپ لائن |
0512260636 0512856950 | |
لیگل ایڈ سوسائٹی | 080070806 | |
سندھ | چائلڈ پروٹیکشن اتھارٹی | 1121,0219933065 |
سٹیزن پولیس لائزن کمیٹی (CPLC) | 1102 | |
بلوچستان | چائلڈ پروٹیکشن یونٹ، بلوچستان پولیس | 0819201262 |
پنجاب | چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر بیورو | 0421121 |
صوبائی محتسب پنجاب | 1050 | |
خیبر پختونخواہ | چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر کمیشن |
1121
|
بولو سے پوچھو
اگر آپ کے پاس پاکستان میں سرکاری اور نجی خدمات سے متعلق کوئی سوال ہے تو آپ ہمیں ہمارے فیس بک پیج پر یا ہماری ویب سائٹ چیٹ باکس کے ذریعے پیغام بھیج سکتے ہیں۔ ہماری ٹیم پیر تا جمعہ صبح 9:00 بجے سے شام 5:00 بجے تک سوالات کے جوابات دیتی ہے۔